عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے (نماز کا) حکم دیا تو «الصلاة جامعة»(نماز باجماعت پڑھی جائے گی) کی منادی کرائی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی (پہلی رکعت میں) آپ نے دو رکوع اور ایک سجدہ کیا ۱؎، پھر آپ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے (دوسری رکعت میں بھی) دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کبھی اتنا لمبا رکوع نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی اتنا لمبا سجدہ کیا۔ محمد بن حمیر نے مروان کی مخالفت کی ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1480]
وضاحت: ۱؎: یہاں سجدہ سے مراد مکمل ایک رکعت ہے، کیونکہ کسی بھی نماز میں ایک سجدہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک رکعت دو رکوع کے ساتھ پڑھی۔ ۲؎: یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں یحییٰ بن ابی کثیر اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا واسطہ ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کی جگہ ابوطعمہ کا واسطہ ہے، اور متن میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں سجدہ کا لفظ آیا ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں اس کی جگہ سجدتین کا لفظ آیا ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکوع کیے، اور دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر سورج سے گرہن چھٹ گیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی سجدہ اور کوئی رکوع ان سے لمبا نہیں کیا۔ علی بن مبارک نے معاویہ بن سلام کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1481]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ نے وضو کیا، اور حکم دیا تو ندا دی گئی: «الصلاة جامعة»(نماز باجماعت ہو گی)، پھر آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے لمبا قیام کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو مجھے گمان ہوا کہ آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے: «سمع اللہ لمن حمده» کہا، پھر آپ نے اسی طرح قیام کیا جیسے پہلے کیا تھا، اور سجدہ نہیں کیا، پھر آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے پہلے ہی کی طرح دو رکوع اور ایک سجدہ کیا، پھر آپ بیٹھے، تب سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1482]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17698) (صحیح) (اس کے راوی ”ابو حفص مولی عائشہ“ لین الحدیث ہیں لیکن متابعت اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے)»