ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ رکوع کے بعد ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1072]
وضاحت: ۱؎: اور رکوع سے پہلے کی بھی روایت موجود ہے جیسا کہ ابن ماجہ (حدیث رقم: ۱۱۸۳) میں «نقنت قبل الرکوع وبعدہ» کے الفاظ آئے ہیں اور اس کی سند قوی ہے۔ گویا دونوں طرح جائز ہے۔
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھی تھی، بیان کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں «سمع اللہ لمن حمده» کہا تو آپ تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1073]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے“۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جس وقت «سمع اللہ لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہتے تو دعا کرتے، سجدہ میں جانے سے پہلے کھڑے ہو کر، کہتے: «اللہم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين من المؤمنين اللہم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم كسني يوسف»”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان پر یوسف سا قحط مسلط کر دے“، پھر آپ اللہ اکبر کہتے اور سجدہ کرتے، ان دنوں قبیلہ مضر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1075]