ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے کیا وہ (اس بات سے) نہیں ڈرتا کہ ۱؎ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل نہ کر دے“۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 829]
براء رضی اللہ عنہ (جو جھوٹے نہ تھے ۱؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 830]
حطان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ قعدہ میں گئے تو قوم کا ایک آدمی اندر آیا اور کہنے لگا کہ نماز نیکی اور زکاۃ کے ساتھ ملا دی گئی ہے ۱؎، تو جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے؟ تو سبھی لوگ خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، تو انہوں نے کہا: اے حطان! شاید تم نے ہی یہ بات کہی ہے! تو انہوں نے کہا: نہیں میں نے نہیں کہی ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مجھ ہی کو اس پر سرزنش نہ کرنے لگ جائیں، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہماری نماز اور ہمارے طریقے سکھاتے تھے، تو آپ فرماتے: ”امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم لوگ آمین کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری (دعا) قبول فرمائے گا، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ (رکوع) سے سر اٹھائے اور «سمع اللہ لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سجدہ سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اور تم سے پہلے سر بھی اٹھاتا ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھر کی کسر ادھر پوری ہو جائے گی“۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 831]