عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 778]
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ۲؎: اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق «اقرأکم أبی» فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ۳؎: اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔