عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ کون اسلام لایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آزاد اور ایک غلام“۱؎ میں نے عرض کیا: کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہو“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، رات کا آخری حصہ ہے، اس میں فجر پڑھنے تک جتنی نماز چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور اسی طرح اس وقت تک رکے رہو جب تک سورج ڈھال کی طرح رہے (ایوب کی روایت میں «وما دامت» کے بجائے «فما دامت» ہے) یہاں تک کہ روشنی پھیل جائے، پھر جتنی چاہو پڑھو یہاں تک کہ ستون اپنے سایہ پر کھڑا ہو جائے ۲؎ پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لیے کہ نصف النہار (کھڑی دوپہر) میں جہنم سلگائی جاتی ہے، پھر جتنا مناسب سمجھو نماز پڑھو یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 585]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 148 (1251)، 182 (1364)، (تحفة الأشراف: 10762)، مسند احمد 4/111، 113، 114 (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس سند کے اندر ”عبدالرحمن بیلمانی“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: آزاد سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور غلام سے بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ۲؎: یعنی سایہ کم ہوتے ہوتے صرف ستون کے نیچے رہ جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (1364،1251) عبد الرحمٰن بن البيلماني ضعيف،. ولبعض الحديث شاهد عند مسلم (832). والحديث السابق (572) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324