عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج نکلتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کی سینگ ہوتی ہے ۱؎، پھر جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے، پھر جب دوپہر کو سورج سیدھائی پر آ جاتا ہے تو پھر اس سے مل جاتا ہے، اور جب ڈھل جاتا ہے تو الگ ہو جاتا ہے، پھر جب سورج ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے، تو اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (تینوں) اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 560]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة 148 (1253)، موطا امام مالک/القرآن 10 (44)، (تحفة الأشراف: 9678)، مسند احمد 4/348، 349 (صحیح) (لیکن تعلیل میں ’’فإذا استوت قارنھا، فإذا زالت فارقھا‘‘ کا جملہ منکر ہے، اس کی جگہ عمروبن عبسہ کی حدیث (رقم: 573) میں ’’فإنہا ساعة تفتح فیہا أبواب جہنم وتسجر‘‘ کا جملہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی شیطان سورج سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سورج کے پوجنے والوں کا سجدہ اس کے لیے ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله فإذا استوت قارنها فإذا زالت فارقها
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے سے اور اپنے مردوں کو دفنانے سے منع کرتے تھے: ایک تو جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو جائے یہاں تک کہ ڈوب جائے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 561]