الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
152. بَابُ: ذِكْرِ غَسْلِ الْجُنُبِ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الإِنَاءَ
152. باب: برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے جنبی کے اپنے دونوں ہاتھ دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 244
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، قال: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ" إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ وُضِعَ لَهُ الْإِنَاءُ، فَيَصُبُّ عَلَى يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الْإِنَاءَ، حَتَّى إِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ صَبَّ بِالْيُمْنَى وَغَسَلَ فَرْجَهُ بِالْيُسْرَى، حَتَّى إِذَا فَرَغَ صَبَّ بِالْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ مِلْءَ كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى جَسَدِهِ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو آپ کے لیے پانی کا برتن رکھا جاتا، آپ برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالتے، یہاں تک کہ جب اپنے ہاتھ دھو لیتے تو اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کرتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے پانی ڈالتے اور بائیں سے اپنی شرمگاہ دھوتے، یہاں تک کہ جب فارغ ہو جاتے تو داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور دونوں ہاتھ دھوتے، پھر تین بار کلی کرتے، اور ناک میں پانی ڈالتے، پھر اپنے لپ بھربھر کر تین بار اپنے سر پر پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر (پانی) بہاتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 244]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 17737)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل 1 (248)، 15 (272)، صحیح مسلم/الحیض 9 (316)، سنن ابی داود/الطھارة 98 (242)، سنن الترمذی/الطھارة 76 (103)، مسند احمد 6/ 96، 115، 143، 161، 173، موطا امام مالک/الطھارة 17 (67)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 245، 246، 247 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن