ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو جو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں استحاضہ ہو گیا (جس سے) وہ پاک ہی نہیں رہ پاتی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاملہ ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حیض کا خون نہیں ہے، بلکہ وہ رحم میں (شیطان کی طرف سے) ایک ایڑ ہے ۱؎ تو وہ اپنے حیض کی مقدار کو جس میں اسے حیض آتا تھا یاد رکھے، پھر اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر اس کے بعد جو دیکھے تو ہر نماز کے وقت غسل کرے“۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 210]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف: 17954)، مسند احمد 6/ 128، مسند احمد 6/ 129، ویأتي عند المؤلف في الحیض 4 رقم: 356 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ رحم میں پیر سے مارتا ہے، تو کوئی رگ پھٹ جاتی ہے جس سے خون نکلتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حیض کا خون نہیں ہے، یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے“، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے حیض کے (دنوں کے) برابر نماز ترک کر دیں، پھر غسل کریں، اور نماز پڑھیں، تو وہ ہر نماز کے وقت غسل کرتی تھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 211]
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو دیکھتی رہو جب حیض (کا دن) آ جائے تو نماز چھوڑ دو، پھر جب تمہارے حیض (کے دن) گزر جائیں، اور تم پاک ہو جاؤ، تو پھر دونوں حیض کے درمیان نماز پڑھو“۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: یہ حدیث ہشام بن عروہ نے عروہ سے روایت کی ہے ۲؎ انہوں نے اس چیز کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر منذر نے کیا ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 212]
وضاحت: ۱؎: یعنی اس حیض کے ختم ہونے سے لے کر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھو، اور جب دوسرا حیض آ جائے تو چھوڑ دو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ «قروء» سے مراد حیض ہے۔ ۲؎: مصنف نے اس جملہ کو اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے کہ قرآن مجید میں «قرء» سے مراد حیض ہے، محققین علماء کی رائے ہے کہ یہ لفظ اضداد میں سے ہے، حیض اور طہر دونوں کے لیے بولا جاتا ہے، خطابی کہتے ہیں کہ «قرء» دراصل اس وقت کو کہتے ہیں جس میں حیض یا طہر لوٹتا ہے، اسی وجہ سے حیض اور طہر دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ۳؎: یعنی ہشام نے عروہ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سماع کا ذکر نہیں کیا ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حدیث میں انقطاع ہے کیونکہ ہشام نے بیان کیا ہے کہ ان کے والد عروہ نے فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کے واقعہ کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، ان کی روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے منذر بن مغیرہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، لیکن بقول امام ابن القیم: عروہ نے فاطمہ سے سنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (280) ابن ماجه (620) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 322
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے، تو میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ تو رگ (کا خون) ہے حیض کا خون نہیں، تو جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب بند ہو جائے تو اپنے (جسم اور کپڑے سے) خون دھو لو، اور (غسل کر کے) نماز پڑھو“۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 213]