الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
صفة الوضوء
ابواب: وضو کا طریقہ
80. بَابُ: حَدِّ الْغَسْلِ
80. باب: اعضائے وضو دھونے کی حد کا بیان۔
حدیث نمبر: 97
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى: هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ: نَعَمْ،" فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ".
عمرو بن یحییٰ المازنی کے والد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے پوچھا- وہ ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں اور (عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو کرتے تھے؟ تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے پانی منگایا، اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر انڈیلا، انہیں دو دو بار دھویا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر جس جگہ سے شروع کیا تھا وہیں انہیں لوٹا لائے، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 97]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 38 (185)، 39 (186)، 41 (191)، 42 (192)، 45 (197)، 46 (199)، صحیح مسلم/الطہارة 7 (235)، سنن ابی داود/فیہ 47 (100)، 50 (118، 119)، سنن الترمذی/فیہ 22 (28)، 24 (32)، 36 (47)، سنن ابن ماجہ/فیہ 43 (405)، 61 (471)، 51 (434)، (تحفة الأشراف: 5308)، موطا امام مالک/فیہ 1 (1)، مسند احمد 4/38، 39، 40، 42، سنن الدارمی/الطہارة 27 (700)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 98، 99 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ کی ضمیر عبداللہ بن زید بن عاصم کی طرف لوٹ رہی ہے، لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے کیونکہ عمرو بن یحییٰ کے دادا کا نام عمارہ ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ظاہر ہے، اس لیے صحیح یہ ہے کہ ضمیر سائل (عمارہ یا عمرو) کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ مسئول کی طرف، صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے کہ سائل یحییٰ نہیں بلکہ عمارہ یا عمرو ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه