عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو“(یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ آیت اس مضمون پر ختم ہو گئی: ”اگر وہ لوگ تمہارے باہر نکلنے تک صبر کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5388]
وضاحت: ۱؎: شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی بحث و تکرار کے سبب ابتداء سورۃ سے «أجر عظیم» تک ۳ آیتیں نازل ہوئیں، اور آیت: «ولو أنهم صبروا حتى تخرج إليهم لكان خيرا لهم» اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور زور سے «یا محمد اخرج» کہنے کی وجہ سے نازل ہوئی، ان میں سے اقرع شاعر تھے، یہی بات باب سے مناسبت ہے، یعنی: کسی شاعر ہونے کے سبب اس کو کسی عہدہ سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔