عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کے پھل (کھجور) توڑے ہوئے پھلوں (کھجور) سے بیچنے سے منع فرمایا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت عطا فرمائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4536]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 4524، وحدیث زید بن ثابت وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 75 (2173)، 82 (2184، 2188)، 84 (2192)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1300، 1302)، سنن ابن ماجہ/التجارات 55 (2268، 2269)، (تحفة الأشراف: 3723، موطا امام مالک/البیوع 9 (14)، مسند احمد (2/5، 8، 5/182، 186، 188، 190)، سنن الدارمی/البیوع 24 (2600)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4540، 4542- 4545) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عرایا: عریا کی شکل یہ ہوتی تھی کہ باغ کا مالک کسی غریب ومسکین کو درختوں کے درمیان سے کوئی درخت صدقہ کر دیتا تھا، تو ایسے میں اگر مسکین اور اس کے بال بچوں کے باغ میں باربار آنے جانے سے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کو یہ اجازت دی گئی کہ اس درخت پر لگے پھل (تر کھجور) کے بدلے توڑی ہوئی کھجور کا اندازہ لگا کر دیدے، یہ ضرورت کے تحت خاص اجازت ہے۔ عام حالات میں اس طرح کی بیع جائز نہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت میں موجود پھل کو متعین توڑے ہوئے پھلوں سے بیچنا اس طور پر کہ زیادہ ہوا تو بھی میرا (یعنی کا) اور کم ہوا تو بھی میرے ذمہ۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4537]