نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کے والد نے ایک غلام ہبہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں۔ آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو یہ عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے واپس لے لو“۔ اس حدیث کے الفاظ محمد (راوی) کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3702]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: میرے پاس ایک غلام تھا جسے میں نے اپنے (اس) بیٹے کو دے دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو غلام دیے ہیں؟“، کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اسے واپس لے لو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3703]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد اپنے بیٹے نعمان کو لے کر آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا ایک غلام اپنے اس بیٹے کو دے دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی دیا ہے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم اسے واپس لے لو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3704]
بشیر بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اپنے بیٹے) نعمان بن بشیر کو لے کر آئے اور عرض کیا: میں نے اس بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا ہے، اگر آپ اس عطیہ کے نفاذ کو مناسب سمجھتے ہوں تو میں اسے نافذ کر دوں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم اسے واپس لے لو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3705]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک عطیہ دیا، تو ان کی ماں نے ان کے والد سے کہا کہ آپ نے جو چیز میرے بیٹے کو دی ہے اس کے دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا دیجئیے، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اس کے لیے گواہ بننے کو ناپسند کیا۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3706]
بشیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس ارادہ سے آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنا دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو اسے لوٹا لو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3707]
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بشیر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! میں نے (اپنے بیٹے) نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس کے بھائیوں کو بھی دیا ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”جو دیا ہے اسے واپس لے لو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3708]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انہیں اٹھا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور کہا: آپ گواہ رہیں میں نے اپنے مال میں سے نعمان کو فلاں اور فلاں چیزیں بطور عطیہ دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو وہی دی ہیں جو نعمان کو دی ہیں؟“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3709]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس ارادہ سے آئے کہ انہوں نے انہیں خاص طور پر عطیہ دیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سبھی لڑکوں کو ویسا ہی دیا ہے جیسا تم نے اسے دیا ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (اس طرح کی) کسی چیز پر گواہ نہیں بنتا۔ کیا یہ بات تمہیں اچھی نہیں لگتی کہ وہ سب تمہارے ساتھ اچھے سلوک میں یکساں اور برابر ہوں“، انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: ”تب تو یہ نہیں ہو سکتا“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3710]
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ماں رواحہ کی بیٹی نے ان کے باپ سے مال میں سے بعض چیزیں ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ انہیں سال بھر ٹالتے رہے، پھر ان کے جی میں کچھ آیا تو اس (بیٹے) کو وہ عطیہ دے دیا۔ ان کی ماں نے کہا: میں اتنے سے مطمئن اور خوش نہیں ہوں جب تک کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہیں بنا دیتے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اس بچے کو جو عطیہ دیا ہے تو اس لڑکے کی ماں، رواحہ کی بیٹی، اس پر مجھ سے جھگڑتی ہے (کہ میں اس پر آپ کو گواہ کیوں نہیں بناتا؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بشیر! اس لڑکے کے علاوہ بھی تمہارا اور کوئی لڑکا ہے؟“، کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے سبھی لڑکوں کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے جیسا تم نے اپنے اس بیٹے کو دیا ہے“، انہوں نے کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو تم مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ میں ظلم و زیادتی کا گواہ نہیں بن سکتا ۱؎“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3711]
نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کو کچھ عطیہ دو، تو انہوں نے: مجھے عطیہ دیا۔ میری ماں نے کہا: میں اس پر راضی (و مطمئن) نہیں ہوں جب تک کہ میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا دوں، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا، اس وقت میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس بچے کی ماں رواحہ کی بیٹی نے مجھ سے کچھ عطیہ کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی خوشی اس میں ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں۔ تو آپ نے فرمایا: ”بشیر! کیا تمہارا اس کے علاوہ بھی کوئی بیٹا ہے؟“، کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے جیسا اسے دیا ہے اسے بھی دیا ہے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ میں ظلم و زیادتی پر گواہ نہیں بنتا“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3712]
عامر شعبی کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں اس کے بیٹے نعمان کو کچھ ہبہ کروں، اور اس کی فرمائش یہ بھی ہے کہ جو میں اسے دوں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس کے سوا اور بھی بیٹے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے انہیں بھی ویسا ہی دیا ہے جیسا تم نے اس لڑکے کو دیا ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں تو آپ نے فرمایا: ”پھر تو تم مجھے ظلم و زیادتی پر گواہ نہ بناؤ“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3713]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 3705 (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں نے اپنے بیٹے کو کچھ ہبہ کیا ہے تو آپ اس پر گواہ ہو جائیے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے پاس کوئی اور لڑکا ہے؟“، انہوں نے کہا: جی ہاں، (ہے) آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے انہیں بھی ایسا ہی دیا ہے جیسے تم نے اسے دیا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو کیا میں ظلم پر گواہی دوں گا؟“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3714]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6580) (صحیح) (یہ مرسل ہے ’’عبداللہ بن عتبہ تابعی ہیں“مگر اگلی سندوں سے یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: تمہارا دوسرے بیٹوں کو محروم کر کے ایک کو دینا اور اس پر مجھ سے گواہ بننے کے لیے کہنا گویا یہ مطالبہ کرنا ہے کہ میں اس ظلم و زیادتی کی تائید کروں۔
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، مجھے ایک چیز دی تھی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چیز پر گواہ بنانا چاہتے تھے جو انہوں نے مجھے دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے اس لڑکے کے علاوہ بھی کوئی اور لڑکا ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں ہے، آپ نے اپنا پورا ہاتھ ہتھیلی سمیت ایک دم سیدھا پھیلاتے ہوئے فرمایا: ”تم نے اس طرح ان کے درمیان برابری کیوں نہ رکھی ۱؎؟“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3715]
نعمان رضی الله عنہ نے دوران خطبہ کہا کہ میرے والد مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے، وہ آپ کو ایک عطیہ پر گواہ بنا رہے تھے تو آپ نے پوچھا: ”کیا اس کے علاوہ تمہارے اور بھی بیٹے ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں (اور بھی بیٹے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ”ان کے درمیان انصاف اور برابری کا معاملہ کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3716]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”(لوگو!) اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النحل/حدیث: 3717]
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اولاد کے درمیان مساوات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے گا، مذکورہ احادیث کی روشنی میں علماء اسے واجب قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ زندگی میں عطیہ یا ہبہ اور بخشش کے سلسلے میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے، اور لڑکی کے دوگنا لڑکے کو دینے کا مسئلہ موت کے بعد وراثت کی تقسیم میں ہے۔ (واللہ اعلم)