الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
45. بَابُ: فَضْلِ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى
45. باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3185
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَاب: الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَاب: الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَاب: الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ، دُعِيَ مِنْ بَاب: الرَّيَّانِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ هَذِهِ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ؟، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا جوڑا دیا ۱؎ جنت میں اس سے کہا جائے گا: اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز، تو جو کوئی نمازی ہو گا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا اور جو کوئی مجاہد ہو گا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور جو کوئی اہل صیام میں سے ہو گا اسے باب ریان (سیراب و شاداب دروازے) سے بلایا جائے گا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا (اللہ کے نبی!) اس کی کوئی ضرورت و حاجت تو نہیں کہ کسی کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے ۲؎ کیا کوئی ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3185]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر (رقم: 2240) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جو چیز بھی اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو دینے والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بشکل جوڑا دے یا جوڑا سے مراد نیک عمل کی تکرار ہے۔ ۲؎: کیونکہ جنت میں داخل ہونے کا مقصد تو صرف ایک دروازے سے دخول کی اجازت ہی سے حاصل ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 3186
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو سَلمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، دَعَتْهُ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَا فُلَانُ هَلُمَّ فَادْخُلْ، فَقَالَ أبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَاكَ الَّذِي لَا تَوَى عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں جوڑا جوڑا صدقہ دیا اسے جنت کے سبھی دروازوں کے دربان بلائیں گے: اے فلاں ادھر آؤ (ادھر سے) جنت میں داخل ہو، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس میں آپ اس شخص کا کوئی نقصان تو نہیں سمجھتے ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) میں تو توقع رکھتا ہوں کہ تم ان ہی (خوش نصیب لوگوں) میں سے ہو گے (جنہیں جنت کے سبھی دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کے لیے بلایا جائے گا)۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3186]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14996) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض ہے لیکن یہ تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ یہاں اس بات کا احتمال ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں داخل ہونے کے لیے حسب وحی الٰہی پہلے ہر عابد کو اس کے مخصوص دروازے سے پکارے جانے کی خبر دی پھر جب ابوبکر رضی الله عنہ نے سوال کیا تو آپ نے ایک ہی عابد کو تمام دروازوں سے پکارے جانے کی خبر دی، اور ساتھ ہی ابوبکر رضی الله عنہ کو اس کی بشارت بھی دی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 3187
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُنْفِقُ مِنْ كُلِّ مَالٍ لَهُ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا اسْتَقْبَلَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ كُلُّهُمْ يَدْعُوهُ إِلَى مَا عِنْدَهُ" , قُلْتُ: وَكَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" إِنْ كَانَتْ إِبِلًا فَبَعِيرَيْنِ وَإِنْ كَانَتْ بَقَرًا فَبَقَرَتَيْنِ".
صعصہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو میں نے ان سے کہا: مجھ سے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے، تو انہوں نے کہا: اچھا (پھر کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسلمان اللہ کے راستے میں اپنا ہر مال جوڑا جوڑا کر کے خرچ کرتا ہے تو جنت کے سبھی دربان اس کا استقبال کریں گے اور ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو گا انہیں دینے کے لیے اسے بلائیں گے، (صعصعہ کہتے ہیں) میں نے کہا: یہ کیسے ہو گا؟ تو انہوں نے کہا: اگر اونٹ رکھتا ہو تو دو اونٹ دیئے ہوں، اور گائیں رکھتا ہو تو دو گائیں دی ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3187]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 11924)، مسند احمد (5/151، 159153، 164)، سنن الدارمی/الجہاد 13 (2447) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی کچھ وضاحت فرمائیے کہ ہر قسم کے مال سے جوڑا دینے کا کیا مطلب ہے؟

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 3188
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ الرُّكَيْنِ الْفَزَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يُسَيْرِ ابْنِ عَمِيلَةَ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كُتِبَتْ لَهُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ".
خریم بن فاتک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں سات سو گنا بڑھا کر لکھا گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3188]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 4 (1625)، (تحفة الأشراف: 3526)، مسند احمد (4/322، 345، 346) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح