سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (کی مجلس) سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: شیخ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہو گا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہو گا جو شہید کر دیا گیا ہو گا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی (ان) نعمتوں کی پہچان کروائے گا (جو نعمتیں اس نے انہیں عطا کی تھیں)۔ وہ انہیں پہچان (اور تسلیم کر) لے گا۔ اللہ (اس) سے کہے گا: یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا ۱؎، پھر حکم دیا جائے گا: اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر لے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک وہ ہو گا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ (اس سے) کہے گا: ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چنانچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا“۔ ایک اور شخص ہو گا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہو گی طرح طرح کے مال و متاع دیئے ہوں گے اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ (اس سے) کہے گا: ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا وہ کہے گا: اے رب! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے۔ مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے چنانچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں «تحب»(کا مفہوم) جیسا میں چاہتا تھا سمجھ نہ سکا لیکن جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ استاذ نے «تحب» کے آگے «أن ينفق فيها»“ کہا۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3139]