حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا، خالد بن معدان کی طرف مڑے، اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا، خالد نے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا کہ جبیر نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ذی مخمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، چنانچہ میں ان دونوں کے ہمراہ چلا، ان سے صلح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: عنقریب ہی روم والے تم سے ایک پر امن صلح کریں گے، اور تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں گے، پھر تم فتح حاصل کرو گے، اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آئے گا، اور تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنگ سے لوٹو گے یہاں تک کہ تم ایک تروتازہ اور سرسبز مقام پر جہاں ٹیلے وغیرہ ہوں گے، اترو گے، وہاں صلیب والوں یعنی رومیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کرے گا، اور کہے گا: صلیب غالب آ گئی، مسلمانوں میں سے ایک شخص غصے میں آئے گا، اور اس کے پاس جا کر صلیب توڑ دے گا، اس وقت رومی عہد توڑ دیں گے، اور سب جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4089]
اس سند سے بھی حسان بن عطیہ سے اسی طرح مروی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے: وہ (نصاریٰ مسلمانوں سے) لڑنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے، اس وقت اسی جھنڈوں کی سرکردگی میں آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4089M]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نصاریٰ کی شان و شوکت اور سلطنت قیامت تک باقی رہے گی یعنی مہدی علیہ السلام کے وقت تک، دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ اکثر لوگ دنیا کے نصاریٰ ہوں گے، یہ حدیث بڑی دلیل ہے آپ کی نبوت کی کیونکہ یہ پیشین گوئی آپ کی بالکل سچی نکلی، کئی سو برس سے نصاریٰ کا برابر عروج ہو رہا ہے، اور ہر ایک ملک میں ان کا مذہب پھیلتا جاتا ہے، دنیا کے چاروں حصوں میں یا ان کی حکومت قائم ہو گئی ہے، یا ان کے زیر اثر سلطنتیں قائم ہیں، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا بادشاہ نصاریٰ کی ایک قوم کے ساتھ مل کر تیسری سلطنت سے لڑے گا اور فتح پائے گا، پھر صلیب پر تکرار ہو کر سب نصاریٰ مل جائیں گے اور متفق ہو کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بڑی بڑی جنگیں ہونے لگیں گی، تو اللہ تعالیٰ موالی (جن کو عربوں نے آزاد کیا ہے) میں سے ایک لشکر اٹھائے گا، جو عربوں سے زیادہ اچھے سوار ہوں گے اور ان سے بہتر ہتھیار رکھتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دین کی مدد فرمائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4090]
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم عنقریب جزیرہ عرب والوں سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، ان پر بھی اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، پھر تم دجال سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا“۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تک روم فتح نہ ہو گا، دجال کا ظہور نہ ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4091]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن 12 (2900)، (تحفة الأشراف: 11584)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/178، 4/347) (صحیح)»
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ عظیم، قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کا خروج تینوں چیزیں سات مہینے کے اندر ہوں گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4092]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم 4 (4295)، سنن الترمذی/الفتن 58 (2238)، (تحفة الأشراف: 11328)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/234) (ضعیف) (سند میں ابو بکر ضعیف اور ولید بن سفیان ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4295) ترمذي (2238) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 523
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ عظیم اور فتح مدینہ (قسطنطنیہ) کے درمیان چھ سال کا وقفہ ہے، اور دجال کا ظہور ساتویں سال میں ہو گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4093]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم 4 (4296)، (تحفة الأشراف: 5194)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/189) (ضعیف) (سند میں سوید بن سعیداوربقیہ میںضعف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4296) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 523
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک مسلمانوں کا نزدیک ترین مورچہ مقام بولاء میں نہ ہو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے علی! اے علی! اے علی!“ انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (فرمائیے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بہت جلد بنی اصفر (اہل روم) سے جنگ کرو گے اور ان سے وہ مسلمان بھی لڑیں گے جو تمہارے بعد پیدا ہوں گے، یہاں تک کہ جو لوگ اسلام کی رونق ہوں گے (یعنی اہل حجاز) وہ بھی ان سے جنگ کے لیے نکلیں گے، اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کریں گے، بلکہ تسبیح و تکبیر کے ذریعہ قسطنطنیہ فتح کر لیں گے، اور انہیں (وہاں) اس قدر مال غنیمت حاصل ہو گا کہ اتنا کبھی حاصل نہ ہوا تھا، یہاں تک کہ وہ ڈھا لیں بھربھر کر تقسیم کریں گے، اور ایک آنے والا آ کر کہے گا: مسیح (دجال) تمہارے ملک میں ظاہر ہو گیا ہے، سن لو! یہ خبر جھوٹی ہو گی، تو مال لینے والا بھی شرمندہ ہو گا، اور نہ لینے والا بھی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4094]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10779، ومصباح الزجاجة: 1449) (موضوع)» (سند میں کثیر بن عبد اللہ ہیں، جن کے بارے میں ابن حبان کہتے ہیں کہ اپنے والد کے حوالہ سے انہوں نے اپنے دادا سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے، جس کا تذکرہ کتابوں میں حلال نہیں ہے، اور نہ اس کی روایت جائز ہے، الا یہ کہ تعجب و استغراب کے نقطئہ نظر سے ہو)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا كثير بن عبد اللّٰه العوفي: متروك وأبو يعقوب إسحاق بن إبراهيم الحنيني: ضعيف (تقريب: 337) وقال الھيثمي: وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 242/10) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 523
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور بنی اصفر (رومیوں) کے درمیان صلح ہو گی، پھر وہ تم سے عہد شکنی کریں گے، اور تمہارے مقابلے کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4095]