معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا کھانے کے دوران ایک لقمہ ان سے گر گیا، تو انہوں نے اسے اٹھایا، اور اس میں لگے کچرے کو صاف کیا، پھر اسے کھا لیا (یہ دیکھ کر) عجمی کسان ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کرنے لگے، لوگوں نے کہا: اللہ امیر کا بھلا کرے، آپ کے سامنے یہ کھانا موجود ہوتے ہوئے اس لقمے کو آپ کے اٹھانے پر یہ کسان لوگ آنکھوں سے باہم اشارے کر رہے ہیں، وہ بولے: ان عجمیوں کی (چہ مہ گوئیوں اور اشارے بازیوں کی) وجہ سے میں اس بات کو ترک کرنے والا نہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم میں سے جب کسی کا لقمہ گر جاتا تو ہم اس سے کہتے کہ وہ اسے اٹھا لے اور اس میں لگی گندگی کو صاف کر لے پھر اسے کھا لے، اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ا؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3278]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11469، ومصباح الزجاجة: 1126)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الأطعمة 8 (2072) (ضعیف الإسناد)» (حسن بصری کا سماع معقل بن یسار سے نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث جابر و انس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیثیں جن میں شیطان کے کھانے کا ذکر ہے اپنے ظاہری معنوں پر ہیں، اور مجازی معنی مراد نہیں ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو علم اپنے نبی کو دیا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں اور شیاطین کا حال بھی جانتے تھے، اور ان کا پھرنا زمین میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد والمرفوع منه صحيح من حديث جابر وأنس م
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ’’ منقطع،قال أبو حاتم: الحسن لم يسمع من معقل بن يسار ‘‘ والحديث الآتي في سنن ابن ماجه (الأصل:3279) يُغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے، تو اسے چاہیئے کہ اس پر جو گندگی لگ گئی ہے اسے پونچھ لے اور اسے کھا لے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3279]