ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور بال کتروانے والوں کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے“، آپ نے یہ تین بار فرمایا: تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور بال کتروانے والوں کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بال کتروانے والوں کو بھی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3043]
وضاحت: ۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ سر منڈانا کتروانے سے افضل ہے کیونکہ سر منڈوانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دعا کی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وہ بھی آخر میں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بال کٹوانے والوں پر بھی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3044]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ نے بال منڈوانے والوں کے لیے تین بار دعا فرمائی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے شک نہیں کیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3045]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6410، ومصباح الزجاجة: 1058)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/353) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: بلکہ جس حکم کو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیان کیا اسی پر عمل کیا، قرآن شریف میں ہے: «محلقين رؤوسكم ومقصرين»(سورة الفتح: 27) تو پہلے حلق کو ذکر فرمایا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه ابن أبي نجيح عنعن وھو مدلس انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486