معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہاں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا: ”اے عمر! تمہارے لیے آیت صیف «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة»”آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے“(سورۃ النساء: ۱۷۶) جو کہ سورۃ نساء کے آخر میں نازل ہوئی، وہی کافی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2726]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفرائض 2 (1617)، (تحفة الأشراف: 10646)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الفرائض 9 (7)، مسند احمد (1/15، 26، 27، 48) (صحیح)»
مرہ بن شراحیل کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بیان فرما دیتے تو میرے لیے یہ دنیا و مافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہوتا، یعنی کللہ، سود اور خلافت۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2727]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10640، ومصباح الزجاجة: 967) (ضعیف)» (سند میں مرہ بن شراحیل اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف مرة بن شراحيل عن عمر مرسل كما قال أبو حاتم الرازي (المراسيل ص 208) وأصل الحديث متفق عليه (البخاري: 5588،مسلم: 3032) ولم يذكرا الخلافة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 477
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں پیدل آئے، مجھ پر بیہوشی طاری تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا (مجھے ہوش آ گیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کیا کروں؟ اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں؟ یہاں تک کہ سورۃ نساء کے اخیر میں میراث کی یہ آیت نازل ہوئی «وإن كان رجل يورث كلالة»”اور جن کی میراث لی جاتی ہے، وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو“(سورۃ النساء: 12) اور «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة»”آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے“(سورۃ النساء: ۱۷۶)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2728]