عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ جب زمانہ زیادہ گزر جائے گا تو کہنے والا یہ کہے گا کہ میں کتاب اللہ میں رجم (کا حکم) نہیں پاتا، اور اس طرح لوگ اللہ تعالیٰ کے ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہو جائیں، واضح رہے کہ رجم حق ہے، جب کہ آدمی شادی شدہ ہو گواہی قائم ہو، یا حمل ٹھہر جائے، یا زنا کا اعتراف کر لے، اور میں نے رجم کی یہ آیت پڑھی ہے: «الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة»”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور رجم کرو ...“۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2553]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا، انہوں نے پھر کہا: میں نے زنا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار زنا کا اقرار کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، چنانچہ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے، ایک شخص نے انہیں پا لیا، اس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو مار کر گرا دیا، پتھر پڑتے وقت ان کے بھاگنے کا تذکرہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخر تم نے انہیں چھوڑ کیوں نہ دیا“؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2554]
وضاحت: ۱؎: تاکہ ان سے پھر پوچھے شاید وہ اپنے اقرار سے پھر جاتے اور حد ساقط ہو جاتی، زنا کا اقرار ایک بار کرنا حد کے لئے کافی ہے، اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غامدیہ کو رجم کیا، اس نے ایک ہی بار اقرار کیا تھا، ایک یہودی اور یہودیہ کا رجم آگے مذکور ہو گا، اس میں بھی چار بار اقرار کا ذکر نہیں ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دئیے گئے، پھر اس کو رجم کیا، اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2555]
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے تاکہ بے پردگی نہ ہو، بعضوں نے اس کے حق میں کچھ برے الفاظ نکالے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سارے مدینہ والوں میں بانٹ دی جائے تو ان کو کافی ہو جائے گی، بے شک یہ عورت اس زمانہ کے تمام عابدوں اور زاہدوں سے درجہ میں زیادہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گناہ کا اقرار کیا، سزا پائی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سے مشرف ہوئی، اللہ ان کے درجہ کو بلند کرے، آمین۔