ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص کو اس کے خریدے ہوئے پھلوں میں گھاٹا ہوا، اور وہ بہت زیادہ مقروض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”تم لوگ اسے صدقہ دو“ چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، لیکن اس سے اس کا قرض پورا ادا نہ ہو سکا، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مل گیا وہ لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے“ یعنی قرض خواہوں کے لیے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2356]
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اب وہ مفلس ہو گیا تو قرض خواہوں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں پہنچتا کہ اس کے پاس جو مال ہو وہ لے لیں، مگر مکان رہنے کا اور ضروری کپڑا اور سردی کا کپڑا، اور سد رمق کے موافق خوراک اس کی اور اس کے گھر والوں کی یہ چیزیں قرض میں نہیں لی جائیں گی۔ (الروضۃ الندیۃ)۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ان کے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا عامل بنا دیا، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مال کے ذریعہ مجھے میرے قرض خواہوں سے چھٹکارا دلوایا، پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بھی بنا دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2357]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2268، ومصباح الزجاجة: 827) (ضعیف)» (سند میں عبد اللہ بن مسلم بن ہرمز ضعیف اور سلمہ المکی مجہول الحال ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن مسلم بن هرمز: ضعيف وسلمة المكي: مجهول (التحرير: 2518 م) وقال البوصيري: ’’ لايعرف حاله ‘‘ والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 464