ابواسید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبیط کے بازار تشریف لے گئے، اس کو دیکھا تو آپ نے فرمایا: ”یہ بازار تمہارے لیے نہیں ہے پھر ایک دوسرے بازار میں تشریف لے گئے، اور اس کو دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بازار بھی تمہارے لیے نہیں ہے، پھر اس بازار میں پلٹے اور اس میں ادھر ادھر پھرے، پھر فرمایا: ”یہ تمہارا بازار ہے، اس میں نہ مال کم دیا جائے گا اور نہ اس میں کوئی محصول (ٹیکس) عائد کیا جائے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2233]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11199، ومصباح الزجاجة: 786) (ضعیف)» (سند میں اسحاق بن ابراہیم، محمد و علی اور زبیر بن منذر سب ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزبير بن المنذر بن أبي أسيد: مستور،وإسحاق بن إبراهيم بن سعيد: لين الحديث (تقريب: 2004،326) والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 458
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو صبح سویرے نماز فجر کے لیے گیا، وہ ایمان کا جھنڈا لے کر گیا، اور جو صبح سویرے بازار گیا وہ ابلیس کا جھنڈا لے کر گیا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2234]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4504، ومصباح الزجاجة: 787) (ضعیف جدا)» (سند میں عیسیٰ بن میمون منکر الحدیث اورمتروک راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا عبيس بن ميمون: ضعيف متروك كما قال الهيثمي(مجمع الزوائد 77/4) وقال البوصيري: ’’ھو متفق علي تضعيفه ‘‘ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 458
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت دعا یہ پڑھے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير كله وهو على كل شيء قدير»”اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے حکمرانی ہے، اور اسی کے لیے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے، وہی زندگی، اور موت دیتا ہے، اور وہ زندہ ہے، اس کے لیے موت نہیں، اسی کے ہاتھ میں سارا خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے“ تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھے گا، اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دے گا، اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2235]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات 36 (3429)، (تحفة الأشراف: 6787، 10528)، وقد أخرجہ: (1/47)، سنن الدارمی/الاستئذان 57 (2734) (حسن)» (سند میں عمرو بن دینار ضعیف راوی ہیں لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)»
وضاحت: ۱؎: بازار میں اس دعا کا ثواب اس واسطے زیادہ ہوا کہ بازار دنیا میں مشغول ہونے اور اللہ سے غفلت کی جگہ ہے تو اس جگہ اللہ کو یاد رکھنا بڑے جواں مردوں کا کام ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: «رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ»(سورہ النور: 37) دوسری روایت میں ہے کہ شیطان بازار میں اپنی کرسی بچھاتا ہے اور لوگوں کو بھڑکاتا ہے، تو وہاں اللہ کی یاد گویا شیطان کو ذلیل کرنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3429) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 458