عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کر لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2210]
وضاحت: ۱؎: تأبیر کے معنی قلم کرنا یعنی نر کھجور کے گابھے کو مادہ میں رکھنا، جب قلم لگاتے ہیں تو درخت میں کھجور ضرور پیدا ہوتی ہے، لہذا قلم کے بعد جو درخت بیچا جائے وہ اس کا پھل بیچنے والے کو ملے گا۔ البتہ اگر خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میں لوں گا تو شرط کے موافق خریدار کو ملے گا، بعضوں نے کہا کہ یہ حکم اس وقت ہے جب درخت میں پھل نکل آیا ہو تو وہ خریدنے والے ہی کا ہو گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت بیچے تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کر لے، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس غلام کے پاس مال ہو تو وہ مال اس کا ہو گا، جس نے اس کو بیچا ہے سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ اسے میں لوں گا،، ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2211]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث محمد بن رمح تقدم بمثل الحدیث المتقدم (2210)، وحدیث ھشام بن عمار أخرجہ: صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابی داود/البیوع 44 (3433)، سنن النسائی/البیوع 74 (4640)، (تحفة الأشراف: 6819) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دوسرے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اختلاف ان کپڑوں میں ہے جو بکتے وقت غلام لونڈی کے بدن پر ہوں، بعضوں نے کہا: وہ بھی بیچنے والا لے لے گا، بعض نے کہا: صرف عورت کا ستر بیع میں داخل ہو گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی کھجور کا درخت بیچے، اور کوئی غلام بیچے تو وہ ان دونوں کو اکٹھا بیچ سکتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2212]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7753)، وقد أخرجہ: مسند احمد2/78) (صحیح)»
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ کھجور کے درخت کا پھل اس شخص کا ہو گا جس نے اس کی تابیر (پیوندکاری) کی، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کر لے، اور جس نے کوئی غلام بیچا اور اس غلام کے پاس مال ہو تو غلام کا مال اس کا ہو گا جس نے اس کو بیچا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کر لے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2213]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5062، ومصباح الزجاجة: 778)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/326، 327) (صحیح)» (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور عبادہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات بھی نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسحاق بن يحيي بن الوليد أرسل عن عبادة وھو مجھول الحال (تقريب:392) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457