الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الكفارات
کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل
15. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ النَّذْرِ
15. باب: نذر سے ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2122
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّذْرِ، وَقَالَ:" إِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ اللَّئِيمِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع کرتے ہوئے فرمایا: اس سے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2122]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/القدر 6 (6608)، الأیمان 26 (6693)، صحیح مسلم/النذور 2 (1639)، سنن ابی داود/الایمان 21 (3287)، سنن النسائی/الایمان 24 (3832، 3833)، (تحفة الأشراف: 7287)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/61، 86، 18)، سنن الدارمی/النذور 5 (2385) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بخیل بغیر مصیبت پڑے خرچ نہیں کرتا، جب آفت آتی ہے تو نذر مانتا ہے، اس وجہ سے نذر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکروہ جانا کیونکہ وہ بخلاء کا شعار ہے، اور سخی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتے ہیں، اور بعضوں نے کہا: نذر سے ممانعت اس حال میں ہے جب یہ سمجھ کر نذر کرے کہ اس کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی، یا مقدر میں جو آفت ہے، وہ ٹل جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2123
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ النَّذْرَ لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ بِشَيْءٍ إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ وَلَكِنْ يَغْلِبُهُ الْقَدَرُ مَا قُدِّرَ لَهُ، فَيُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ فَيُيَسَّرُ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُنْ يُيَسَّرُ عَلَيْهِ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13670)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 26 (6692)، صحیح مسلم/النذر 2 (1640)، سنن ابی داود/الأیمان 21 (3288)، سنن الترمذی/الأیمان 10 (1538)، سنن النسائی/الأیمان 25 (3836)، مسند احمد (2/235، 242، 301، 314، 412، 463) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري