عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”اس سے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2122]
وضاحت: ۱؎: بخیل بغیر مصیبت پڑے خرچ نہیں کرتا، جب آفت آتی ہے تو نذر مانتا ہے، اس وجہ سے نذر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکروہ جانا کیونکہ وہ بخلاء کا شعار ہے، اور سخی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتے ہیں، اور بعضوں نے کہا: نذر سے ممانعت اس حال میں ہے جب یہ سمجھ کر نذر کرے کہ اس کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی، یا مقدر میں جو آفت ہے، وہ ٹل جائے گی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]