عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص قسم کھائے تو «ما شاء الله وشئت»”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“ نہ کہے، بلکہ یوں کہے: «ما شاء الله ثم شئت»”جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2117]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6552، ومصباح الزجاجة: 746)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/214، 224، 283، 347) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس میں مخاطب کو اللہ کے ساتھ کر دیا ہے جس سے شرک کی بو آتی ہے، اگرچہ مومن کی نیت شرک کی نہیں ہوتی پھر بھی ایسی بات کہنی جس میں شرک کا وہم ہو منع ہے۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک شخص سے ملا تو اس نے کہا: تم کیا ہی اچھے لوگ ہوتے اگر شرک نہ کرتے، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس مسلمان نے یہ خواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں اس بات کو جانتا ہوں (کہ ایسا کہنے میں شرک کی بو ہے)۔ لہٰذا تم «ما شاء الله ثم شاء محمد»”جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں“ کہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2118]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تجفة الأشراف: 3318، ومصباح الزجاجة: 747)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3935) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کے بعد محمد کو رکھو تو حرج نہیں اس لئے کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں، سب اس کے بندے اور غلام ہیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت ایسا کہنے سے منع فرمایا تو اب کسی ولی، پیر و مرشد اور فقیر و درویش کی کیا بساط ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے یا ہونے یا نہ ہونے میں اللہ کے نام کے ساتھ شریک ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف عبدالملك بن عمير عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 455
اس سند سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاتی بھائی طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی مرفوعاً روایت آئی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2118M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4992، ومصباح الزجاجة: 748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/72، 398)»