الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
31. بَابُ: مَا جَاءَ فِي صِيَامِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
31. باب: داود علیہ السلام کے روزے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1712
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الشَّافِعِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَيُصَلِّي ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ سُدُسَهُ".
عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، آپ آدھی رات سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو رہتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1712]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/التہجد 7 (1131)، أحادیث الأنبیاء 38 (3420)، صحیح مسلم/الصیام 35 (1159)، سنن ابی داود/الصیام 67 (2448)، سنن النسائی/قیام اللیل 13 (1631)، الصیام 40 (2346)، (تحفة الأشراف: 8897)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم 57 (770)، سنن الدارمی/الصوم 42 (1793) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1713
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ:" وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ:" ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ"، قَالَ: كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ:" وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا ایسا کرنے کی کسی میں طاقت ہے؟ انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، پھر انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1713]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصیام 36 (1162)، سنن ابی داود/الصوم 53 (2425، 2426)، سنن الترمذی/الصوم 46 (749)، 48 (752)، 56 (767)، سنن النسائی/الصیام 42 (2385)، (تحفة الأشراف: 12117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/295، 296، 299، 303، 308، 310) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ایک دن روزہ، اور دو دن افطار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پسند کیا کیونکہ اس میں افطار غالب اور روزہ کم ہے، تو کمزوری لاحق ہونے کا بھی ڈر نہیں ہے، اور یہ فرمایا: مجھے یہ پسند ہے کہ مجھ کو اس کی طاقت ہوتی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ کی طاقت تھی، آپ صوم وصال رکھا کرتے تھے، مگر آپ کو اپنی بیویوں کے حقوق کا بھی خیال تھا، اور دوسرے کاموں کا بھی، اس لحاظ سے زیادہ روزے نہیں رکھ سکتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم