الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
13. بَابُ: مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ
13. باب: رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کا بیان۔
حدیث نمبر: 1669
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ:" إِنْ كَانَ لَيَكُونُ عَلَيَّ الصِّيَامُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَمَا أَقْضِيهِ حَتَّى يَجِيءَ شَعْبَانُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اوپر رمضان کے روزے ہوتے تھے میں ان کی قضاء نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1669]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 40 (1950)، صحیح مسلم/الصوم 26 (1146)، سنن ابی داود/الصوم 40 (2399)، سنن النسائی/الصیام 36 (2321)، (تحفة الأشراف: 17777)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام 20 (54)، مسند احمد (6/124، 179) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جب شعبان کا مہینہ آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مہینہ میں بہت روزے رکھتے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قضا کرتیں، اور قضا میں دیر کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت بہت تھی، پہلے روزے رکھنے سے اندیشہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1670
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّوْمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا تو آپ ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1670]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطہارة 97 (130)، (تحفة الأشراف: 15974)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض20 (321)، صحیح مسلم/الحیض 15 (335)، سنن ابی داود/الطہارة 105 (263)، سنن النسائی/الحیض 17 (382)، الصیام 36 (2320)، مسند احمد (6/32، 97، 120) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ زبير على زئي: حسن