الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
3. بَابُ: مَا جَاءَ فِي صِيَامِ يَوْمِ الشَّكِّ
3. باب: شک کے دن کے روزے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1645
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، فَأُتِيَ بِشَاةٍ فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ عَمَّارٌ :" مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک والے دن میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی بعض لوگ اس کو دیکھ کر الگ ہو گئے، (کیونکہ وہ روزے سے تھے) عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1645]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصوم 11 (1906)، (تعلیقا) سنن ابی داود/الصوم 10 (2334)، سنن الترمذی/الصوم 3 (686)، سنن النسائی/الصیام 20 (2190)، (تحفة الأشراف: 10354) وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم 1 (1724) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: شک والے دن سے مراد ۳۰ شعبان کا دن ہے یعنی بادلوں کی وجہ سے ۲۹ ویں کو چاند نظر نہ آیا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن اسی وجہ سے اسے شک کا دن کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2334) ترمذي (686) نسائي (2190)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439

حدیث نمبر: 1646
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَعْجِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ قَبْلَ الرُّؤْيَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1646]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14339، ومصباح الزجاجة: 599) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، صحیح ابو داود: 2015)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
عبداﷲ بن سعيد المقبري: متروك
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439

حدیث نمبر: 1647
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَبْلَ شَهْرِ رَمَضَانَ:" الصِّيَامُ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَنَحْنُ مُتَقَدِّمُونَ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَتَقَدَّمْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيَتَأَخَّرْ".
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما منبر پر کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے پہلے منبر پر فر مار ہے تھے: روزہ فلاں فلاں دن شروع ہو گا، اور ہم اس سے پہلے سے روزہ رکھنے والے ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے پہلے سے روزہ رکھے، اور جس کا جی چا ہے مؤخر کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1647]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11436، ومصباح الزجاجة: 600) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ھیثم بن حمید ضعیف ہے، نیز (1650) نمبر پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے یہ مخالف ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی رمضان کا دن آ جائے تب روزہ شروع کرے، واضح رہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، مسئلہ کے لیے حدیث نمبر (۱۶۵۰) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف مع مخالفته لحديث أبي هريرة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
العلاء بن الحارث اختلط (تقريب: 5230)
والحديث شاذ،غريب جدًا،انظرالحديث الآتي (الأصل:1650)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439