ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ۱؎ کا بوسہ لیا، اور وہ مردہ تھے، گویا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤں کو دیکھ رہی ہوں جو آپ کے رخسار مبارک پہ بہہ رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1456]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجنائز 40 (3163)، سنن الترمذی/الجنائز 14 (989)، (تحفة الأشراف: 17459)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/43، 55، 2067) (صحیح) (دوسری سند سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہیں، تراجع الألبانی، رقم: 495)»
وضاحت: ۱؎: عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے، اور دونوں ہجرتوں میں شریک تھے، اور بدر کی لڑائی میں حاضر تھے، اور مہاجرین میں سے مدینہ میں سب سے پہلے آپ ہی کی وفات ہوئی، شعبان کے مہینے میں ہجرت کے ڈھائی سال کے بعد، اور جب آپ دفن ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا پیش خیمہ اچھا ہے“، اور وہ بقیع میں دفن ہوئے، عابد، زاہد اور فضلائے صحابہ میں سے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پتھر خود اٹھایا اور ان کی قبر پر رکھا، «رضی اللہ عنہ وأرضاہ» ۔ ۲؎: اس حدیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہوتا ہے، رہی ممانعت والی روایت تو اسے آواز اور جزع و فزع (بے صبری) کے ساتھ رونے پر محمول کیا جائے گا، یا یہ ممانعت عورتوں کے ساتھ مخصوص ہوگی کیونکہ اکثر وہ بے صبری ہوتی ہیں، اور رونے پیٹنے لگتی ہیں، اس لئے سدباب کے طور پر انہیں اس سے منع کر دیا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3163) ترمذي (989) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 429
عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا، اور آپ کی وفات ہو چکی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1457]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المغازي 83 (4455، 4456)، الطب 21 (5709)، سنن الترمذی/الشمائل 53 (373)، سنن النسائی/الجنائز 11 1841)، (تحفة الأشراف: 5860، 16316)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/55) (صحیح)»