الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
21. بَابُ: الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ
21. باب: سجدے میں اعتدال اور میانہ روی۔
حدیث نمبر: 891
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَعْتَدِلْ، وَلَا يَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کا کوئی شخص سجدہ کرے تو اعتدال سے کرے ۱؎، اور اپنے دونوں بازوؤں کو کتے کی طرح نہ بچھائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 891]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/المواقیت 89 (275)، (تحفة الأشراف: 2311)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/305، 315، 389) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے، اور دونوں کہنیاں زمین سے اٹھائے رکھے، اور پیٹ کو ران سے جدا رکھے، حافظ ابن حجر نے کہا: بازوؤں کو بچھانا مکروہ ہے کیونکہ خشوع اور آداب کے خلاف ہے، البتہ اگر کوئی دیر تک سجدے میں رہے تو وہ اپنے گھٹنے پر بازو ٹیک سکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی مشقت کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹنوں سے مدد لو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 892
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَسْجُدْ أَحَدُكُمْ وَهُوَ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ كَالْكَلْبِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدوں میں اعتدال کرو، اور تم میں سے کوئی اپنے بازو کتے کی طرح بچھا کر سجدہ نہ کرے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 892]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن النسائی/الافتتاح 89 (1029)، التطبیق 53 (1111)، (تحفة الأشراف: 1197)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 8 (532)، الأذان 141 (822)، صحیح مسلم/الصلاة 45 (493)، سنن ابی داود/الصلاة 158 (987)، سنن الترمذی/المواقیت 90 (276)، مسند احمد (3/115، 177، 179، 191، 214، 274، 291)، سنن الدارمی/الصلاة 75 (1361) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه