ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: ”جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 761]
وضاحت: ۱؎: مسجد میں تھوک، بلغم، رینٹ وغیرہ سے طاقت بھر پرہیز لازم ہے، اگر شدید ضرورت ہو، اور مسجد کا فرش ریت یا مٹی کا ہو تو بائیں پیر کے نیچے تھوک کر اس کو دبا دے، لیکن آج کل مساجد کے فرش پختہ ہیں، ان پر کسی بھی صورت میں تھوکنا جائز نہیں، ضرورت کے وقت رومال وغیرہ میں تھوکے، مسجد کو گندہ ہونے سے بچائے۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، اتنے میں قبیلہ انصار کی ایک عورت آئی اور اس نے اسے کھرچ دیا، اور اس کی جگہ خوشبو لگا دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنا اچھا کام ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 762]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/المساجد 35 (729)، (تحفة الأشراف: 698)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/188، 199، 200) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی تعریف کی کہ اس نے مسجد سے کراہت کی چیز نکال ڈالی اور اس کے بعد قبلہ کی طرف خوشبو لگائی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دیوار صاف ہوتی تھی جب بھی کوئی اس پر تھوک دیتا وہ واضح طور پر نظر آتا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، اس وقت آپ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بلغم کھرچ دیا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 763]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 33 (406)، الأذان 94 (753)، العمل في الصلاة 2 (1213)، الأدب 75 (6111)، صحیح مسلم/المساجد 13 (547)، (تحفة الأشراف: 8271)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 22 (479)، سنن النسائی/المساجد 31 (725)، موطا امام مالک/القبلة 3 (4)، مسند احمد (2/32، 66)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1437) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ مالک جب سامنے ہو اور اسی طرف تھوکے، تو اس میں بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے، اس حدیث میں جہمیہ اور اہل بدعت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) ہر مکان اور ہر جہت میں ہے کیونکہ یہ تشبیہ ہے، اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے: یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نمازی کے سامنے ہے، پس معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے ہونے سے اس کی رحمت کا سامنے ہونا مراد ہوتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر مکان میں ہوتا جیسے اہل بدعت کا اعتقاد ہے تو بائیں طرف بھی تھوکنا ویسا ہی منع ہوتا، جیسے سامنے تھوکنا، واضح رہے کہ اللہ رب العزت کے لیے علو اور بلندی کی صفت کتاب و سنت سے ثابت ہے، اور وہ آسمان سے بلند عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ شروع کتاب السنہ کی احادیث میں گزرا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی دیوار پر لگا ہوا تھوک رگڑ کر صاف کر دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 764]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17287ومصباح الزجاجة: 287)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 33 (406)، صحیح مسلم/المساجد 13 (549)، موطا امام مالک/القبلة 3 (5)، مسند احمد (4/138، 148، 230، 6/138) (صحیح)»