الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الأذان والسنة فيه
کتاب: اذان کے احکام و مسائل اورسنن
1. بَابُ: بَدْءِ الأَذَانِ
1. باب: اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟
حدیث نمبر: 706
حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ الْمَدَنِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ هَمَّ بِالْبُوقِ وَأَمَرَ بِالنَّاقُوسِ فَنُحِتَ، فَأُرِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فِي الْمَنَامِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، يَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ تَبِيعُ النَّاقُوسَ؟، قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟، قُلْتُ: أُنَادِي بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ:" أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: تَقُول: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِمَا رَأَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ رَجُلًا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ يَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقَصَّ عَلَيْهِ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ صَاحِبَكُمْ قَدْ رَأَى رُؤْيَا، فَاخْرُجْ مَعَ بِلَالٍ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأَلْقِهَا عَلَيْهِ وَلْيُنَادِ بِلَالٌ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ"، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ بِلَالٍ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهَا عَلَيْهِ وَهُوَ يُنَادِي بِهَا، فَسَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالصَّوْتِ فَخَرَجَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ فَأَخْبَرَنِي، أَبُو بَكْرٍ الْحَكَمِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ فِي ذَلِكَ: أَحْمَدُ اللَّهَ ذَا الْجَلَالِ وَذَا الْإِكْـ ـرَامِ حَمْدًا عَلَى الْأَذَانِ كَثِيرَا إِذْ أَتَانِي بِهِ الْبَشِيرُ مِنَ اللَّـ ـهِ فَأَكْرِمْ بِهِ لَدَيَّ بَشِيرَا فِي لَيَالٍ وَالَى بِهِنَّ ثَلَاثٍ كُلَّمَا جَاءَ زَادَنِي تَوْقِيرَا.
عبداللہ بن زید (عبداللہ بن زید بن عبدربہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا (تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا)، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا)، اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس شخص نے کہا: تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا: میں اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے پوچھا: وہ بہتر چیز کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یہ کلمات کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة حي على الصلاة حي على الفلاح حي على الفلاح. الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله»  اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آؤ نماز کے لیے، آؤ نماز کے لیے، آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن زید نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پورا خواب بیان کیا: عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک آدمی کو دو سبز کپڑے پہنے دیکھا، جو ناقوس لیے ہوئے تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پورا واقعہ بیان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: تمہارے ساتھی نے ایک خواب دیکھا ہے، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم بلال کے ساتھ مسجد جاؤ، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتے جاؤ، اور وہ اذان دیتے جائیں، کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند تر ہے، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتا گیا اور وہ انہیں بلند آواز سے پکارتے گئے، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جوں ہی یہ آواز سنی فوراً گھر سے نکلے، اور آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں: مجھے ابوبکر حکمی نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں چند اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے: میں بزرگ و برتر اللہ کی خوب خوب تعریف کرتا ہوں، جس نے اذان سکھائی، جب اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان کی خوشخبری دینے والا (فرشتہ) آیا، وہ خوشخبری دینے والا میرے نزدیک کیا ہی باعزت تھا، مسلسل تین رات تک میرے پاس آتا رہا، جب بھی وہ میرے پاس آیا اس نے میری عزت بڑھائی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 706]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 28 (499)، سنن الترمذی/الصلاة 25 (189)، (تحفة الأشراف: 5309)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 3 (379)، مسند احمد (4/42، 43)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1224) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خواب سچا ہے، ان شاء اللہ تعالی اور عمر رضی اللہ عنہ کے دیکھنے سے اس کی سچائی کا اور زیادہ یقین ہوا، اس پر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خواب پر حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے بعد آپ پر وحی کی گئی کیونکہ دین کے احکام خواب سے ثابت نہیں ہو سکتے، مگر انبیاء کے خواب وحی میں داخل ہیں، تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جس شخص کو خواب میں دیکھا وہ اللہ تعالی کا فرشتہ تھا، اور صرف وحی پر جو اکتفا نہیں ہوئی، اور اذان کئی شخصوں کو خواب میں دکھلائی گئی تو اس میں بھی یہ راز تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت کا زیادہ ثبوت ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 707
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَذَكَرُوا الْبُوقَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ، ثُمَّ ذَكَرُوا النَّاقُوسَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَى، فَأُرِيَ النِّدَاءَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَطَرَقَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا بِهِ فَأَذَّنَ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَزَادَ بِلَالٌ فِي نِدَاءِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى وَلَكِنَّهُ سَبَقَنِي.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کیا صورت ہونی چاہیئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا (کہ اسے نماز کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا، پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا، اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو خواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے اذان دی۔ زہری کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں  «الصلاة خير من النوم» نماز نیند سے بہتر ہے کا اضافہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، لیکن وہ (آپ کے پاس پہنچنے میں) مجھ سے سبقت لے گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 707]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6866، ومصباح الزجاجة: 261)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/148) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک روای محمد بن خالد ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے، کیونکہ بخاری و مسلم میں آئی ہوئی حدیث کے ہم معنی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف وبعضه صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن خالد بن عبد اللّٰه الواسطي ضعيف (تقريب: 5846)
ولبعض الحديث شواھد عند البخاري (603،604) ومسلم (377،378) وغيرھما
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 403