انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج اونچا اور زندہ ہوتا تھا، چنانچہ (نماز پڑھ کر) کوئی شخص عوالی ۱؎ میں جاتا تو سورج بلند ہی ہوتا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 682]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (404)، سنن النسائی/المواقیت 7 (508)، (تحفة الأشراف: 1522)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 13 (550)، الاعتصام 16 (7329)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (11)، مسند احمد (3/223)، سنن الدارمی/الصلاة 15 (1244) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مدینہ کے جنوب مغرب میں جو بستیاں تھیں انہیں عوالی کہا جاتا تھا، ان میں سے بعض مدینہ سے دو میل بعض تین میل اور بعض آٹھ میل کی دوری پر تھیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور دھوپ میرے کمرے میں باقی رہی، ابھی تک سایہ دیواروں پر چڑھا نہیں تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 683]
وضاحت: ۱؎: سائے کا کمرہ کے اندر ہونا دلالت کرتا ہے کہ عصر کا وقت ہوتے ہی نماز پڑھ لی گئی تھی، اگر دیر کی جاتی تو سایہ کمرے میں نہ رہتا بلکہ دیواروں پر چڑھ جاتا۔