ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کی نماز جس کو تم ظہر کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 674]
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کو نظر انداز کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 675]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3512)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 33 (619)، سنن النسائی/المواقیت 2 (498) مسند احمد (5/108، 110) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نماز کی تاخیر گوارا نہ کی، اور ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ریت کی گرمی (زمین کی تپش) کی شکایت کی، تو آپ نے اسے نظر انداز کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 676]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9545، ومصباح الزجاجة: 254) (صحیح)» (اس سند میں مالک الطائی غیر معروف ہیں، اور معاویہ بن ہشام صدوق ہیں، وہم کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہوا کہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعد تھوڑی سی دیر کریں نہ کہ ایک مثل کے بعد پڑھیں، ایک مثل کے بعد تو ظہر کا وقت ہی نہیں رہتا، اور ٹھنڈک سے یہ مراد ہے کہ دوپہر کی دھوپ میں ذرا نرمی آ جائے بالکل ٹھنڈک تو شام تک بھی نہیں ہوتی۔