عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، حالانکہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ یزید بن ہارون کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 322]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث شعبی سے بیان کی تو انہوں نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سچ کہا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی سچ کہا، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ صحراء میں نہ تو قبلہ کی جانب منہ کرو نہ پیٹھ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیت الخلاء میں قبلہ کا اعتبار نہیں، جدھر چاہو منہ کرو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 323]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8251، ومصباح الزجاجة: 130)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/97، 99، 114) (ضعیف جدًا)» (سند میں عیسیٰ بن أبی عیسیٰ الحناط متروک الحدیث ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف جدًا عيسي بن أبي عيسي الحناط: متروك (تقريب: 5317) والحديث ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 388
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذکر ہوا کہ کچھ لوگ بیت الخلاء میں قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ وہ عملی طور پر بھی اجتناب کرتے ہوں گے۔ میری جائے ضرورت کا رخ قبلہ کی طرف کر دو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 324]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16331، ومصباح الزجاجة: 132)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 127، 137، 183، 219، 227، 239) (ضعیف)» (سند میں خالد بن ابوصلت مجہول ہیں، نیز عراک بن مالک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کا سماع نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالد بن أبي الصلت: مقبول (تقريب: 1643) أي مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده انوار الصحيفه، صفحه نمبر 388
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر آپ کے انتقال سے ایک سال پہلے میں نے دیکھا قضائے حاجت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ قبلہ کی طرف ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 325]
وضاحت: ۱؎: جابر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ممانعت صحراء اور «بنیان»(آبادی) دونوں کو عام تھی، اسی وجہ سے انہوں نے اسے نسخ پر محمول کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل سے ممانعت منسوخ ہو گئی، اگر ممانعت کو صحراء و میدان کے ساتھ خاص مان لیا جائے تو نہ دونوں فعلوں میں تعارض ہو گا، اور نہ ہی ناسخ منسوخ ماننے کی ضرورت پڑے گی۔