عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں اور میری ماں اپنی ایک دیوار پر مٹی پوت رہے تھے، آپ نے فرمایا: عبداللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ مرمت (سرمت) کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے (یعنی موت اس سے بھی قریب آتی جا رہی ہے، اعمال میں جو کمیاں ہیں ان کی اصلاح و درستگی کی بھی فکر کرو)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5235]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد 25 (2335)، سنن ابن ماجہ/الزھد 13 (4160)، (تحفة الأشراف: 8650)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/161) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (5449) الأعمش صرح بالسماع عند البخاري في الأدب المفرد (456)
اس سند سے بھی اعمش سے (ان کی سابقہ سند سے) یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے ہم اپنے جھونپڑے کو درست کر رہے تھے جو گرنے کے قریب ہو گیا تھا، آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ ہم نے کہا: ہمارا یک بوسیدہ جھونپڑا ہے ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مگر میں تو معاملہ (موت) کو اس سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتا دیکھ رہا ہوں“(زندگی میں جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرو)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5236]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے (راہ میں) ایک اونچا قبہ دیکھا تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ تو آپ کے اصحاب نے بتایا کہ یہ فلاں انصاری کا مکان ہے، آپ یہ سن کر چپ ہو رہے اور بات دل میں رکھ لی، پھر جب صاحب مکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سلام کیا تو آپ نے اس سے اعراض کیا (نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے نہ اسے جواب دیا) ایسا کئی بار ہوا، یہاں تک کہ اسے معلوم ہو گیا کہ آپ اس سے ناراض ہیں اور اس سے اعراض فرما رہے ہیں تو اس نے اپنے دوستوں سے اس بات کی شکایت کی اور کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و برتاؤ میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں، تو لوگوں نے بتایا کہ: آپ ایک روز باہر نکلے تھے اور تیرا قبہ (مکان) دیکھا تھا (شاید اسی مکان کو دیکھ کر آپ ناراض ہوئے ہوں) یہ سن کر وہ واپس اپنے مکان پر آیا، اور اسے ڈھا دیا، حتیٰ کہ اسے (توڑ تاڑ کر) زمین کے برابر کر دیا، پھر ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اس مکان کو نہ دیکھا تو فرمایا: وہ مکان کیا ہوا، لوگوں نے عرض کیا: مالک مکان نے ہم سے آپ کی اس سے بے التفاتی کی شکایت کی، ہم نے اسے بتا دیا، تو اس نے اسے گرا دیا، آپ نے فرمایا: ”سن لو ہر مکان اپنے مالک کے لیے وبال ہے، سوائے اس مکان کے جس کے بغیر چارہ و گزارہ نہ ہو“۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5237]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1720)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزھد 13 (4161)، مسند احمد (3/220) (حسن) (الصحیحة 2830)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أبو طلحة الأسدي صدوق كما في الكاشف للذهبي