انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4988]
وضاحت: ۱؎: گویا کسی چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، اگرچہ ان دونوں میں کلی طور پر اشتراک نہ ہو صرف جزوی اشتراک ہو، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کو محض سبک رفتاری میں اشتراک کی وجہ سے بحر(سمندر) سے تشبیہ دی،اسی طرح نماز عشاء کو عتمہ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ عتمہ یعنی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے، اس استدلال سے محض تکلف ظاہر ہوتا ہے، اس باب میں زیادہ موزوں اور واضح استدلال ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس کی تخریج بخاری، مسلم اور ترمذی نے کی ہے، اور جس میں یہ الفاظ وارد ہیں: «ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لأتوهما ولو حبوا» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2627) صحيح مسلم (2307)