ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل میں دو شخص برابر کے تھے، ان میں سے ایک تو گناہ کے کاموں میں لگا رہتا تھا“ اور دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا، عبادت گزار دوسرے کو برابر گناہ میں لگا رہتا دیکھتا تو اس سے کہتا: باز رہ، ایک دفعہ اس نے اسے گناہ کرتے پایا تو اس سے کہا: باز رہ اس نے کہا: قسم ہے میرے رب کی تو مجھے چھوڑ دے (اپنا کام کرو) کیا تم میرا نگہبان بنا کر بھیجے گئے ہو؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا یا تمہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا، پھر ان کی روحیں قبض کر لی گئیں تو وہ دونوں رب العالمین کے پاس اکٹھا ہوئے، اللہ نے اس عبادت گزار سے کہا: تو مجھے جانتا تھا، یا تو اس پر قادر تھا، جو میرے دست قدرت میں ہے؟ اور گنہگار سے کہا: جا اور میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا، اور دوسرے کے متعلق کہا: اسے جہنم میں لے جاؤ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی بات کہی جس نے اس کی دنیا اور آخرت خراب کر دی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4901]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 13515)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/323) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2347)
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم و بغاوت اور قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) جیسا کوئی اور گناہ نہیں ہے، جو اس لائق ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو اسی دنیا میں سزا دے باوجود اس کے کہ اس کی سزا اس نے آخرت میں رکھ چھوڑی ہو ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4902]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة 57 (1511)، سنن ابن ماجہ/الزہد 23 (4211)، (تحفة الأشراف: 11693)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/38) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «بغی» سے مراد باغی کا ظلم یا سلطان کے خلاف بغاوت یا کبر و غرور ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (4932) أخرجه الترمذي (2511 وسنده صحيح) وابن ماجه (4211 وسنده صحيح)