عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ خرید و فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے (تو وہ کیا کرے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جب تم خرید و فروخت کرو، تو کہہ دیا کرو «لا خلابة»(دھوکا دھڑی کا اعتبار نہ ہو گا)“ تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو «لا خلابة» کہہ دیتا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3500]
وضاحت: ۱؎: خریدار کے ایسا کہہ دینے سے اسے اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور اگر بعد میں اسے پتہ چل جائے کہ اس کے ساتھ چالبازی کی گئی ہے تو وہ بیع فسخ کر سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2117) صحيح مسلم (1533)
انس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خرید و فروخت کرتا تھا، لیکن اس کی گرہ (معاملہ کی پختگی میں) کمی و کمزوری ہوتی تھی تو اس کے گھر والے اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! فلاں (کے خرید و فروخت) پر روک لگا دیجئیے، کیونکہ وہ سودا کرتا ہے لیکن اس کی سودا بازی کمزور ہوتی ہے (جس سے نقصان پہنچتا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے خرید و فروخت کرنے سے منع فرما دیا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! مجھ سے خرید و فروخت کئے بغیر رہا نہیں جاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اگر تم خرید و فروخت چھوڑ نہیں سکتے تو خرید و فروخت کرتے وقت کہا کرو: نقدا نقدا ہو، لیکن اس میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی ۱؎“۔ اور ابوثور کی روایت میں ( «أخبرنا سعيد» کے بجائے) «عن سعيد» ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3501]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البیوع 28 (1250)، سنن النسائی/البیوع 10 (4490)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/217) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پس اگر کسی نے دھوکہ اور فریب کیا، تو بیع فسخ ہو جائے گی اور لیا دیا واپس ہو جائے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد منھا الحديث السابق (3500)