علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حدیبیہ میں صلح سے پہلے کچھ غلام (بھاگ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، تو ان کے مالکوں نے آپ کو لکھا: اے محمد! اللہ کی قسم! یہ غلام تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں، یہ تو فقط غلامی کی قید سے بھاگ کر آئے ہیں، تو کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان لوگوں نے سچ کہا: انہیں مالکوں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے ۱؎ اور فرمایا: ”قریش کے لوگو، میں تم کو باز آتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں یہاں تک کہ اللہ تمہارے اوپر اس شخص کو بھیجے جو اس پر ۲؎ تمہاری گردنیں مارے“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس لوٹانے سے انکار کیا اور فرمایا: ”یہ اللہ عزوجل کے آزاد کئے ہوئے ہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2700]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/المناقب 20 (3715)، (تحفة الأشراف: 10088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/155) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے شرع کے حکم پر ظن و تخمین کی بنیاد پر اعتراض کیا، اور مشرکین کے دعوے کی حمایت کی۔ ۲؎: اس پر سے مراد جاہلی عصبیت اور بے جا قومی حمیت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3715) محمد بن إسحاق عنعن ورواه الترمذي (3715) من حديث شريك القاضي به وھومدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 98