بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”وتر حق ہے ۱؎ جو اسے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم سے نہیں“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1419]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:1986)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/357) (ضعیف)» (اس کے راوی عبیداللہ العتکی ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اگر صحیح ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وتر کا پڑھنا ثابت ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج ابن المنذر نے ان الفاظ میں کی ہے «الوتر حق وليس بواجب» یعنی وتر ایک ثابت شدہ امر ہے لیکن واجب نہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف أبو المنيب حسن الحديث في غير ما أنكر عليه انظر تحفة الأقوياء في تحقيق كتاب الضعفاء للبخاري (215) وھذا الحديث مما أنكر عليه انظر ميزان الإعتدال (11/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 57
ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1420]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الصلاة 6 (462)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 194 (1401)، (تحفة الأشراف: 5122)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاة اللیل 3 (14)، مسند احمد (5/315، 319، 322)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1618) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کا ذکر نہیں کیا ہے، اگر یہ واجب ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھی ضرور بیان فرماتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (570) أخرجه النسائي (462 وسنده حسن) وله شاھد انظر الحديث السابق (425)