عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں سورۃ مزمل کی آیت «قم الليل إلا قليلا، نصفه»۱؎”رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی رات یعنی آدھی رات“ کو دوسری آیت «علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن»۲؎”اسے معلوم ہے کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے لہٰذا اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا اب تم جتنی آسانی سے ممکن ہو (نماز میں) قرآن پڑھا کرو“ نے منسوخ کر دیا ہے، «ناشئة الليل» کے معنی شروع رات کے ہیں، چنانچہ صحابہ کی نماز شروع رات میں ہوتی تھی، اس لیے کہ رات میں جو قیام اللہ نے تم پر فرض کیا تھا اس کی ادائیگی اس وقت آسان اور مناسب ہے کیونکہ انسان سو جائے تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کب جاگے گا اور «أقوم قيلا» سے مراد یہ ہے رات کا وقت قرآن سمجھنے کے لیے بہت اچھا وقت ہے اور اس کے قول «إن لك في النهار سبحا طويلا»۳؎ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج کے واسطے دن کو بہت فرصت ہوتی ہے (لہٰذا رات کا وقت عبادت میں صرف کیا کرو)۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1304]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سورۃ مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو لوگ رات کو (نماز میں) کھڑے رہتے جتنا کہ رمضان میں کھڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ سورۃ کا آخری حصہ نازل ہوا، ان دونوں کے درمیان ایک سال کا وقفہ ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1305]