عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا اور وہ عرنہ و عرفات کی جانب تھا تو فرمایا: ”جاؤ اور اسے قتل کر دو“، عبداللہ کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھ لیا عصر کا وقت ہو گیا تھا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا اگر میں رک کر نماز میں لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان فاصلہ ہو جائے گا، چنانچہ میں اشاروں سے نماز پڑھتے ہوئے مسلسل اس کی جانب چلتا رہا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: عرب کا ایک شخص، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلے) کے لیے تم (لوگوں کو) جمع کر رہے ہو ۱؎ تو میں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا: ہاں میں اسی کوشش میں ہوں، چنانچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا، جب مجھے مناسب موقع مل گیا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کر دیا اور وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1249]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5146)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/496) (حسن)» (اس کے راوی ابن عبد اللہ بن انیس لین الحدیث ہیں، لیکن اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ (982) اور ابن حبان (591) نے کی ہے، اور ابن حجر نے حسن کہا ہے (فتح الباری2/437)، البانی نے بھی اسے صحیح ابی داود میں رکھا ہے (1135/م) نیز ملاحظہ ہو: (الصحیحة 3293)
وضاحت: ۱؎: یہ ذومعنی کلام ہے لیکن اللہ کا دشمن خالد بن سفیان ہذلی، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے اس توریہ کو سمجھ نہیں سکا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن صححه ابن خزيمة (983 وسنده حسن، 982) ابن إسحاق صرح بالسماع وابن عبد الله بن أنيس إسمه عبد الله، انظر دلائل النبوة للبيھقي (4/42) وھو حسن الحديث