انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بھاری بھر کم آدمی ہوں - وہ بھاری بھر کم تھے بھی، میں آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہوں، انصاری نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر بلایا اور کہا: آپ یہاں نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ تو میں آپ کی پیروی کیا کروں، پھر ان لوگوں نے اپنی ایک چٹائی کا کنارہ دھویا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ راوی کہتے ہیں: فلاں بن جارود نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ کو کبھی اسے پڑھتے نہیں دیکھا سوائے اس دن کے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 657]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 41 (670)، (تحفة الأشراف: 234)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/130، 131، 184، 291) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح خ دون قوله فصل حتى أراك كيف تصلي فأقتدي بك
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کی زیارت کے لیے آتے تھے، تو کبھی نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ ہماری ایک چٹائی پر جسے ہم پانی سے دھو دیتے تھے نماز ادا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 658]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی اور دباغت دیئے ہوئے چمڑوں پر نماز پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 659]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11509)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/254) (ضعیف)» (یونس بن الحارث ضعیف ہیں اور ابوعون کے والد عبیداللہ بن سعید ثقفی مجہول ہیں، نیز مغیرہ رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت منقطع ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يونس بن الحارث ضعفه الجمهور وقال في التقريب(7902) ’’ ضعيف ‘‘ وفي سماع عبد اللّٰه بن سعيد من المغيرة نظر : انظر ھامش اتحاف المھرة (13/ 421) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 36