ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذن کی بخشش کر دی جاتی ہے، جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے ۱؎، اور اس کے لیے تمام خشک و تر گواہی دیتے ہیں، اور جو شخص نماز میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز کے درمیان جو کوتاہی سرزد ہوئی ہو وہ مٹا دی جاتی ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 515]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الأذان 14 (646)، سنن ابن ماجہ/الأذان 5 (724)، (تحفة الأشراف: 15466)، مسند احمد (2/429، 458) (صحیح)» (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ابویحییٰ مجہول راوی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں: یہ ابویحییٰ اسلمی ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ حسن کے مرتبہ کے راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے اتنے گناہ بخش دیے جاتے ہیں جو اتنی جگہ میں سما سکیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (667)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے یہاں تک کہ (وہ اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان نہیں سنتا، پھر جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوتی ہے وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں یہاں تک کہ اس شخص کو یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں؟“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 516]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأذان 4 (608)، سنن النسائی/الأذان 30 (671)، (تحفة الأشراف: 13818)، موطا امام مالک/السہو 1 (1)، مسند احمد (2/313، 460، 522)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 8 (389)، سنن الترمذی/الصلاة 175 (399)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 135 (1217)، ویأتي برقم (1030) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (608) صحيح مسلم (389)