سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بحث کی آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے، تو غالب ہوئے آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے کہ گمراہ کیا تو نے لوگوں کو، اور نکالا ان کو جنت سے۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا: تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے کہ اللہ نے تجھے علم دیا ہر چیز کا، اور برگزیدہ کیا رسالت سے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے کہا: باوجود اس کے تو مجھے ملامت کرتا ہے ایسے کام پر جو میری تقدیر میں لکھا جا چکا تھا، قبل میرے پیدا ہونے کے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1618]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3409، 4736، 4738، 6614، 7515، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6179، 6180، 6210، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10918، 10919، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4701، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2134، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 80، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7578، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1148، 1149، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20067، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1663، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 1»
حضرت مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اس آیت کے متعلق: «﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ﴾ [الأعراف: 172] » یعنی: ”یاد کر اس وقت کو جب تیرے پروردگار نے آدم کی پیٹھ سے ان کی تمام اولاد کو نکالا، اور ان کو گواہ کیا ان پر اس بات کا کہ کیا میں نہیں ہوں پروردگار تمہارا۔ بولے کیوں نہیں، تو پروردگار ہے ہمارا۔ ہم نے اس واسطے گواہ کیا کہ کہیں ایسا نہ کہو تم قیامت کے روز کہ ہم تو اس سے غافل تھے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس آیت کی تفسیر کا سوال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جل جلالہُ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان میں اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اولاد نکالی، اور فرمایا: میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا، اور یہ لوگ جنتیوں کے کام کریں گے۔ پھر بایاں ہاتھ پھیرا ان کی پیٹھ پر اور اولاد نکالی، فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا، اور یہ جہنمیوں کے کام کریں گے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ(1)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کے واسطے، تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، اور موت کے وقت بھی وہ نیک عمل کر کے مرتا ہے، تو اللہ جل جلالہُ اسے جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ موت بھی اسے برے کام پر آتی ہے، تو اسے جہنم میں داخل کرتا ہے۔“(2)[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1619]
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6166، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 75، 3275، 4023، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 11126، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3075، وأحمد فى «مسنده» برقم: 311، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3886، 3887، 3888، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 2»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”چھوڑے جاتا ہوں میں تم میں دو چیزوں کو، نہیں گمراہ ہو گے جب تک پکڑے رہو گے ان کو، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1620]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، انفرد به المصنف من هذا الطريق شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو شواہد کی بناء پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہے اور شیخ احمد علی سلیمان نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 3»
حضرت طاؤس الیمانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے چند صحابہ کو پایا، کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے۔ طاؤس نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”ہر چیز تقدیر سے ہے، یہاں تک کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1621]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6149، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20941، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5893، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 4»
حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا خطبہ میں، فرماتے تھے: اللہ ہی ہدایت کرنے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1622]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «القضاء والقدر» برقم: 496/308، ابن بطة فى الابانة 1659، لالكائي فى شرح اصول اعتقاد احل السنة واجماعة: 1201، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 5»
حضرت ابوسہیل بن مالک، عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ جا رہے تھے، انہوں نے پوچھا ابوسہیل سے کہ: تمہاری کیا رائے ہے قدریہ کے بارے میں؟ ابوسہیل نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ان سے توبہ کراؤ، توبہ کر لیں تو بہتر، نہیں تو قتل کئے جائیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: میری رائے بھی یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: میری بھی یہی رائے ہے ان لوگوں کے بارے میں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْجَامِعِ/حدیث: 1623]
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20883، والبيهقي فى «القضاء والقدر» برقم: 542/320، إبن عساكر فى تاريخ دمشق: 314/64، إبن أبى عاصم فى السنة: 88/1، فواد عبدالباقي نمبر: 46 - كِتَابُ الْقَدَرِ-ح: 6»