سیدنا قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میت کی نانی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس میراث مانگنے آئی، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصّہ مقرر نہیں ہے، اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی حدیث سنی ہے، تو واپس جا، میں لوگوں سے پوچھ کر دریافت کروں گا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت موجود تھا، میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصّہ دلایا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے (جو اس معاملے میں جانتا ہو)؟ تو سیدنا محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور جیسا سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا ویسا ہی بیان کیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چھٹا حصّہ اس کو دلا دیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں ایک دادی میراث مانگنے آئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصّہ مذکور نہیں، اور پہلے جو حکم ہو چکا ہے وہ نانی کے بارے میں ہوا تھا، اور میں اپنی طرف سے فرائض میں کچھ بڑھا نہیں سکتا، لیکن وہی چھٹا حصّہ تو بھی لے، اگر نانی بھی ہو تو دونوں چھٹا حصّہ بانٹ لو، اور جو تم دونوں میں سے ایک اکیلی ہو (یعنی صرف نانی ہو یا صرف دادی) وہی چھٹا حصّہ لے لے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1480]
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2894، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2100، 2101، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2981، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2724، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 80، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12466، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18143، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6031، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8070، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6305، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19083، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31922، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 4»
حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ نانی اور دادی دونوں آئیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چھٹا حصّہ نانی کو دینا چاہا، ایک شخص انصاری بولا: اے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ! تم اس کو نہیں دلاتے جو اگر مرجاتی اور میّت زندہ ہوتا، یعنی اس کا پوتا تو وارث ہوتا (اور اس کو دلاتے ہو جو اگر مرجاتی اور میت زندہ ہوتا یعنی اس کا نواسہ تو وارث نہ ہوتا)، پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر چھٹا ان دونوں کو دلا دیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1481]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12342، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 81، 82، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4132، 4133، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19084، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31283، فواد عبدالباقي نمبر: 27 - كِتَابُ الْفَرَائِضِ-ح: 5»
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن حصّہ نہیں دلاتے تھے مگر نانی کو یا دادی کو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی، البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی، جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصّہ ملے گا۔ اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میّت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میّت کے ساتھ زیادہ قریب ہوگی تو اسی کو چھٹا حصّہ ملے گا(1)، اور جو دادی زیادہ قریب ہوگی(2) یا دونوں برابر ہوں(3) تو چھٹے میں دونوں شریک ہوں گے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے، مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہو جائے(1)، ان کے سوا اور نانیوں(2) دادیوں(3) کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ دلایا نانی کو، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا پوچھا، جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو ترکہ دلایا، انہوں نے دلایا، بعد اس کے دادی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے وقت میں آئی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا، لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں چھٹے حصّے کو بانٹ لیں، اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا چھٹا لے لے(4)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب سے دین اسلام شروع ہوا ہے آج تک سوائے ان نانی اور دادی کے اور قسم کی نانی دادی کو کسی نے میراث نہیں دلائی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الْفَرَائِضِ/حدیث: 1482]