حضرت عمرو بن سلیم زرقی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اس جگہ مدینہ میں ایک لڑکا ہے قریب بلوغ کے، مگر بالغ نہیں ہوا، قبیلہ غسان سے، اور اس کے وارث شام میں ہیں، اور اس کے پاس مال ہے، اور یہاں اس کا کوئی وارث نہیں سوائے ایک چچا زاد بہن کے۔ تو سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کو وصیت کرے۔ اس لڑکے نے مال کی وصیت جس کا نام بئر جشم تھا، اپنی چچا زاد بہن کے واسطے کی۔ عمرو بن سلیم نے کہا: وہ مال تیس ہزار درہم کا بکا۔ اور اس کی چچا زاد بہن عمرو بن سلیم کی ماں تھی۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1469]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12780، 21634، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 6087، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16410، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 430، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 2»
حضرت ابوبکر بن حزم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا غسان کا مرنے لگا مدینہ میں، اور وارث اس کے شام میں تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا: کیا وصیت کرے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وصیت کرے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا: وہ لڑکا دس برس کا تھا یا بارہ برس کا، اور بئر جشم (اس مال کا نام تھا) چھوڑ گیا اس کی وصیت کر گیا، لوگوں نے اسے تیس ہزار درہم کا بیچا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1470]
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21635، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3330، 3333، 3334، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 430، 431، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16409، 16410، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 3»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ ضعیف العقل اور نادان اور مجنوں کی جس کو کبھی آفاقہ ہوجاتا ہے، وصیت درست ہے، جب اتنی عقل رکھتے ہوں کہ وصیت جو کریں اس کو سمجھیں، اگر اتنی بھی عقل نہ ہو تو اس کی وصیت درست نہیں ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1470B1]