سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کو عمریٰ دے اس کے واسطے اور اس کے وارثوں کے واسطے، تو پھر وہ عمریٰ اس کا ہو جاتا ہے، دینے والے کو پھر نہیں مل سکتا۔“(کیونکہ اس نے ایسی چیز دی جس میں وراثت ہونے لگی)۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1456]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2625، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1625، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5130، 5135، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3776، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6536، 6537، أبو داود فى «سننه» برقم: 3550، 3551، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1350، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2380، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12080، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14932، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 43»
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم نے سنا مکحول سے، پوچھتے ہوئے قاسم سے: عمریٰ کے متعلق کیا قول ہے لوگوں کا اس میں؟ قاسم نے کہا: میں نے تو لوگوں کو اپنی شرطیں پوری کرتے ہوئے پایا اپنے مالوں میں، اور جو کچھ وہ دیا کرتے تھے اس کو بھی پورا کرتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1457]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ عمریٰ دینے والے کو پھر عمریٰ مل جائے گا، جب کہ معمر لہُ مر جائے اور دینے والے نے اس کے وارثوں کو نہ دیا ہو، بلکہ معمر لہُ کے حین حیات تک دیا ہو۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1457B1]
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وارث ہوئے اُم المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے، وہ اپنا گھر سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو زندگی بھر رہنے کو دے گئی تھیں، جب وہ مر گئیں تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس گھر کو لے لیا اپنا سمجھ کر۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1458]