امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص ثواب کے واسطے کسی کو کوئی شئے دے، اس کا عوض نہ چاہتا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ کر دے، تو وہ نافذ ہوجائے گا، مگر جب دینے والا مرجائے معطیٰ لہُ کے قبضے سے پہلے۔ اگر دینے والا یہ چاہے کہ بعد دینے کے اس کو رکھ چھوڑے تو یہ نہیں ہو سکتا، معطیٰ لہُ جب چاہے تو جبراً اس سے لے سکتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1455Q1]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر زید نے عمرو کو ایک شئے اللہ واسطے دی، بعد اس کے زید مرگیا عمرو ایک گواہ لے کر آیا، تو عمرو کو قسم کھانی پڑے گی، اگر وہ قسم کھا لے گا تو ایک گواہی اور ایک قسم پر وہ شئے عمرو کو دلا دیں گے، اگر عمرو نےقسم سے انکار کیا تو زید سے قسم لیں گے، اگر زید نےقسم کھانے سے انکار کیا تو وہ شئے دینی پڑے گی، جب عمرو کے پاس ایک گواہ بھی ہو، اگر ایک بھی گواہ نہ ہو تو عمرو کا صرف دعویٰ مسموع نہ ہوگا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1455Q2]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک شئے اللہ واسطے دی، پھر معطیٰ لہُ قبل قبضے کے مر گیا، تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہوں گے، اگر دینے والا قبل معطیٰ لہُ کے قبضے کے مر گیا تو اب اس کو کچھ نہ ملے گا، کیونکہ قبضہ نہ ہونے کے سبب سے وہ ہبہ لغو ہوگیا، اگر دینے والا اس کو روک رکھے اور ہبہ پر گواہ نہ ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا، جب معطیٰ لہُ لینے کو کھڑا ہو جائے تو لے سکتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1455Q3]