سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے باپ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی غلام دیا ہے؟“ بولا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رجوع کر ہبہ سے۔“[موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1452]
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3703، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5979، 6466، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18572، والحميدي فى «مسنده» برقم: 948، 951، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 39»
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے باپ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ہبہ کئے تھے کھجور کے درخت، جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی، اپنے باغ میں سے جو غابہ میں تھے (غابہ ایک موضع ہے شام کی راہ میں)۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہونے لگی، انہوں نے کہا: اے بیٹی! کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا مجھے پسند ہو بعد اپنے تجھ سے زیادہ، اور نہ کسی آدمی کا مفلس رہنا نا پسند ہے مجھ کو بعد اپنے تجھ سے زیادہ، میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کیے تھے، اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کر لیتی تو وہ تیرا مال ہو جاتا، اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے، اور وارث کون ہیں، دو بھائی ہیں تمہارے (عبدالرحمٰن اور محمد) اور دو بہنیں ہیں، تو بانٹ لینا اس کو کتاب اللہ کے موافق۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے میرے باپ قسم اللہ کی! اگر بڑے سے بڑا مال ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی، لیکن میں حیران ہوں (ایک بہن تو میری اسماء ہے) اور دوسری بہن کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جو (حبیبہ) بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے، میں اس کو لڑکی سمجھتا ہوں۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1453]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11948، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3761، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16507، 16508، 16512، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20506، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5844، 5845، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 40»
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا حال ہے لوگوں کا کہ ہبہ کرتے ہیں اپنے بیٹوں کو پھر روک لیتے ہیں، اگر بیٹا مر جاتا ہے تو کہتے ہیں: میرا مال میرے قبضے میں ہے کسی کو نہیں دیا، اگر باپ مر جاتا ہے تو کہہ جاتا ہے کہ وہ میرے بیٹے کا ہے اس کو میں ہبہ کر چکا ہوں، جو کوئی ہبہ کرے اور اس کو نافذ نہ کرے، یعنی موہوب لہُ اس پر قبضہ نہ کرے اس طرح سے کہ جب موہوب لہُ مرے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے، تو وہ ہبہ باطل ہے۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الرَّهْنِ/حدیث: 1454]
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11949، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3782، 3784، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16509، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20117، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 41»